بینکوں سے رقم نکالنے پر پابندیاں بدستور جاری ہیں، امیروں کو ہفتے میں 24 ہزار روپے نکالنے کی اجازت ہے لیکن بینک اپنی طرف سے بھی نئی حدیں قائم کرر ہے ہیں۔ کوئی دس ہزار دے رہا ہے تو کوئی چار، کرنسی کم ہے اور شاید ان کی کوشش یہ ہے کہ سب کو کچھ مل جائے لیکن امیروں کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ انھیں پیسے کیوں چاہیئں۔
غریبوں کو اپنے جن دھن کھاتوں سے دس ہزار روپے ماہانہ نکالنے کی اجازت ہے، اس سے زیادہ چاہیے تو انھیں بینک کو بتانا ہوگا کہ کیوں اور بینک کو اس کا باقاعدہ ریکارڈ رکھنا ہوگا۔
یہ جن دھن کھاتے انتہائی مفلسی میں زندگی گزارنے والوں کو بینکنگ سسٹم میں شامل کرنے کے لیے کھلوائے گئے تھے اور حکومت کو خطرہ ہے کہ ان کھاتوں کو کچھ امیر لوگ پرانی کرنسی نئی میں بدلنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
بڑے نوٹ بند ہوئے تین ہفتے ہو چکے ہیں، وزیر اعظم نے 50 دن کا وقت مانگا تھا لیکن اب یہ لگ رہا ہے کہ اتنی جلدی حالات میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئے گی، حکومت کے چھاپے خانوں میں دن رات نوٹ چھاپے
جارہے ہیں، لیکن یہ سوا ارب کا ملک ہے یہاں ہر کام میں وقت لگتا ہے۔
سابق وزیراعظم من موہن سنگھ کے مطابق ترقی کی رفتار دو فیصد (پوائنٹس) کم ہوسکتی ہے، ایچ ایس بی سی اور فچ جیسے اداروں کا خیال ہے کہ یہ نقصان ایک فیصد سے نصف فیصد تک ہو سکتا ہے۔ فوربس میگزین میں چھپنے والے ایک مضمون کے مطابق سچ یہ ہے کہ آگے کیا ہوگا، کسی کو نہیں معلوم۔
بینکوں میں نو لاکھ کروڑ روپے جمع کرائے جاچکے ہیں یعنی ختم کی جانے والی آدھی سے زیادہ کرنسی بنکنگ کے نظام میں واپس آچکی ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق نوے سے پچانوے فیصد کرنسی بنکوں میں جمع کرائی جاسکتی ہے۔
اب حکومت کو فکر یہ ہوگی کہ جیسے ہی پابندیاں ہٹائی جائیں گی، لوگ اپنا پیسہ واپس نکالنے کی کوشش کریں گے، انکم ٹیکس کے اہلکاروں کے لیے بھی یہ بہت بڑا چیلنج ہے، جن کھاتوں میں ڈھائی لاکھ روپے سے زیادہ جمع کرائے گئے ہیں ان کی تفتیش ہوگی اور اس کام میں بہت وقت لگے گا۔
عام شکایت یہ ہے کہ حکومت نے پوری تیاری کے بغیر یہ قدم اٹھایا ہے